خوراک کا عالمی دن، دنیا میں 70کروڑ 95لاکھ سے زائد افراد بھوک کا شکارہیں

  • October 17, 2016, 7:43 pm
  • National News
  • 109 Views

کوئٹہ( اسٹاف رپورٹر )پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراک کا عالمی دن آج منایا گیا گاایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ سے زائد افراد بھوک کا شکار ہیں، پاکستان 118ممالک کی فہرست میں11ویں نمبر پر موجود ہے جس کی کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے ،حکومتی اقدامات محض کاغذوں تک محدود ہیں غربت کے خاتمے کے لیئے اقدامات ناگزیر ہیں،بے روزگاری ختم کرکے خوراک کی کمی کے مسئلے کوحل کیا جاسکتا ہےانٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے بھوک کا شکار ممالک کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ادارے کی جانب سے گلوبل ہنگر انڈیکس 2016ء میں مختلف ممالک کے لوگوں کو خوراک کی دستیابی کی صورتحال کے مطابق انہیںصفر سے 100 پوائنٹس کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔پاکستان 118 ممالک میں 11ویں نمبر پر ہے اور اس کے 33.4 پوائنٹس ہیں، پاکستان سے صرف 11 ملک ایسے ہیں جہاں بھوک کا شکار لوگوں کا تناسب زیادہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں،2008 میں پاکستان کے پوائنٹس 35.1 تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہاں بھوک میں کمی کچھ کم ہوئی ہے۔لیکن درجہ بندی سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی غذا کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تشویشناک صورتحال سے دوچار ممالک میں شامل ہے،پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر میں ہی وفات پا جاتے ہیں،افغانستان کا نمبر 8واںجبکہ بھارت کا نمبر 22واں ہے۔بھارت ،نائیجریااور انڈونیشیا ء سمیت 43 ممالک بھی تشویشناک کیٹیگری میں شامل ہیں۔2016 کے انڈیکس کے مطابق 7ممالک میں بھوک کی صورتحال خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں صحارا، وسطی افریقہ، چاڈ، میڈاگاسکر، سیرالیون اور زمبیا شامل ہیں۔بتایا گیا ہے کہ2000 سے لے کر اب تک بھوک کی شرح میں 29 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی ترقی پذیر ملک غذائی قلت کی وجہ سے شدید خطرے سے دوچار نہیں ۔13 ممالک ایسے ہیں جہاں سے ڈیٹا اکھٹا نہیں کیا جا سکا ان میں سے دس ممالک ایسے ہیں جہاں بھوک و افلاس کی صورتحال شدید خطرناک ہے ان میں شام، سوڈان اور صومالیہ شامل ہیں۔118 ممالک میں سے نصف ایسے ہیں جو بھوک کے شکار ہونے والوں میں خطرناک یا تشویشناک کیٹیگری میں شامل ہیںادارے کا کہنا ہے کہ 2030 تک دنیا سے بھوک کا خاتمہ کرنے کا ہدف تب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب سیاسی طور پر اس کے حصول کی کوشش کی جائے اور جنگ و جدل کا خاتمہ ہوماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان مین محض بھوک کے خاتمے اور لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے بلند و بانگ دعوے صرف سیاسی بنیادوں پر کیئے جاتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر حکمران غریب کی غربت اور بھوک کا احساس نہیں کرتے نہ ہی روزگار کی فراہمی کے لیئے اقدامات کیئے جاتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرکہ بے روزگاروں کوکھپایا جائے ۔